Wednesday 24 April 2013

19:26
پیش کردہ: مفتی عابدالرحمٰن مظاہری بجنوری


بغیر وضو قرآن پاک چھونا جائز نہیں


اعوذ باللہ من الشیطان الرجیم

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
وَمَنْ يُّعَظِّمْ شَعَاۗىِٕرَ اللہِ فَاِنَّہَا مِنْ تَقْوَي الْقُلُوْبِ۝۳۲ 
اور جو شخص ادب کی چیزوں کی جو خدا نے مقرر کی ہیں عظمت رکھے تو یہ (فعل) دلوں کی پرہیزگاری

وَاِنَّہٗ لَتَنْزِيْلُ رَبِّ الْعٰلَمِيْنَ۝۱۹۲ۭ نَزَلَ بِہِ الرُّوْحُ الْاَمِيْنُ۝۱۹۳ۙ عَلٰي قَلْبِكَ لِتَكُوْنَ مِنَ الْمُنْذِرِيْنَ۝۱۹۴ۙ 
اور یہ قرآن (خدائے) پروردگار عالم کا اُتارا ہوا ہے ،اس کو امانت دار فرشتہ لے کر اُترا ہے ،(یعنی اس نے) تمہارے دل پر (القا) کیا ہے تاکہ (لوگوں کو) نصیحت کرتے رہو 
اور اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
اِنَّہٗ لَقُرْاٰنٌ كَرِيْمٌ۝ فِيْ كِتٰبٍ مَّكْنُوْنٍ۝ لَّا يَمَسُّہٗٓ اِلَّا الْمُطَہَّرُوْنَ۝تَنْزِيْ لٌ مِّنْ رَّبِّ الْعٰلَمِيْنَ۝ 
کہ یہ بڑے رتبے کا قرآن ہے ،(جو) کتاب محفوظ میں (لکھا ہوا ہے) ،اس کو وہی ہاتھ لگاتے ہیں جو پاک ہیں،پروردگار عالم کی طرف سے اُتارا گیا ہے ۔
اور سورہ طٰہ مین اللہ تعالیٰ حضرت موسیٰ علیہ السلام کو یوں خطاب فرماتے ہیں:
اِنِّىْٓ اَنَا رَبُّكَ فَاخْلَعْ نَعْلَيْكَ۝۰ۚ اِنَّكَ بِالْوَادِ الْمُقَدَّسِ طُوًى۝۱۲ۭ 
میں تو تمہارا پروردگار ہوں تو اپنی جوتیاں اتار دو۔ تم (یہاں) پاک میدان (یعنی) طویٰ میں ہو 
محترم قارئین کرام مجھے ان آیات کریمہ کے ذیل میں اپنے موقف کوآپ حضرات کےسامنے پیش کرنا ہے قبل اس کے کہ کچھ عرض کروں میری آپ حضرات سے گزارش ہے کہ پہلے میرے اس مضمون کو بنظر تحسین دیکھئے اور پھر تنقید کیجئے ، یعنی پہلے حسن دیکھیں پھر نقص ۔اگر تنقید کی نگاہ سے دیکھا جائے گا تو میری بات میں ہر جگہ ہر جملہ میں اور ہرہر لفظ میں کوتاہی اور نقص ہی نقص نظر آئے گا۔ اس مضمون کولکھتے ہوئے کئی پہلوؤں پر میری نگاہ ہے ۔ اس لیے ان شاء اللہ (انشاءاللہ ) کوئی نہ کوئی بات مفید اور کار آمد مل جائے گی،فائدہ سے خالی نہیں۔
جہاں تک قرآن پاک کی تلاوت کا معاملہ ہے تو اتنا تو طے شدہ ہے کہ جنابت اور حیض و نفاس ِ کے علاوہ بغیر وضو قرآن پاک کی تلاوت کی جا سکتی ہے۔جس طرح کہ حفاظ کرام یا وہ حضرات جن کو قرآن پاک کی کچھ آئتیں یاسورتیں یاد ہوتی ہیں یا کسی چیز کی مدد سے قرآن کوچھوئے بنا اوراق کو بدلنا یا کھولنابغیر وضو کے جائز ہے ، اس لیے چھونے میں اور تلاوت کرنے میں زمین آسمان کا فرق ہے جیسا کہ کچھ حضرات نے چھونے اور تلاوت کرنے کو یک ہی تسلیم کرتے ہوئے قرآن پاک کی تلاوت کو جائز سمجھ لیا ہے اور خلط مبحث کردیا ہے جب کہ ایسا نہیں ہے۔
اور یہ سمجھ کر کہ مومن پاک ہوتا ہے اس لیے اس کو بغیر وضو قرآن پاک چھونا جائز ہے ۔ ان کا یہ فیصلہ اور ایسا سمجھنا مناسب نہیں بلکہ محل نظر ہے۔
بغیر وضو کے جواز کے قائلین فرماتے ہیں ،کہ’’ مطھرون‘‘ کی نسبت فرشتوں کی طرف ہے ،جیسا کہ مفسرین کی ایک جماعت بھی اس طرف گئی ہے ، جہاں تک فرشتوں کے طاہر ہونے اور معصوم ہونے کا معاملہ ہے تو ہمیں یہ تسلیم ہے فرشتے طاہر ہیں اور معصوم ہیں ، لیکن ان کی تطہیر اور معصومیت کا باعث فرشتوں کا بشری تقاضوں سے مبرّا ہونا ہے اور چونکہ ان کی خلقت بھی نور سے ہوئی ہے اور نور خود پاک ہوتا ہے ، اس لیے ان کو مزید کسی طہارت کی ضرورت نہیں جب کہ انسان کی تخلیق گندی مٹی اور ایک ناپاک قطرے سے ہوتی ہے اور بشری تقاضے بھی لاحق ہوتے ہیں جس کی وجہ سے ناپاک بھی ہوتا رہتا ہے۔ اس سے معلوم ہوا فرشتوں کو ’’من حیث التطہیر‘‘ انسان پر فوقیت حاصل ہے۔ لیکن مرتبہ کے اعتبار سے انسان کو ہی تما م مخلوق پر اشرف ہونے کا شرف حاصل ہے ۔کیوں کہ خلیفۃ الرب ہے اور حامل امانت الٰہی ہے جس کا ذکر قرآن پاک میں موجود ہے۔

اِنَّا عَرَضْنَا الْاَمَانَۃَ عَلَي السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ وَالْجِبَالِ فَاَبَيْنَ اَنْ يَّحْمِلْنَہَا وَاَشْفَقْنَ مِنْہَا وَحَمَلَہَا الْاِنْسَانُ۝۰ۭ اِنَّہٗ كَانَ ظَلُوْمًا جَہُوْلًا۝۷۲ۙ 
ہم نے (بار) امانت کو آسمانوں اور زمین پر پیش کیا تو انہوں نے اس کے اٹھانے سے انکار کیا اور اس سے ڈر گئے۔ اور انسان نے اس کو اٹھا لیا۔ بےشک وہ ظالم اور جاہل تھا ۔

اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے جو مخلوق تخلیقی اعتبار سے پاک ہے ان کے بارے میں تو ارشاد باری تعالیٰ ہے ’’کہ نہیں چھوتے ہیں مگر پاک ہی‘‘اور جو تخلیقی اعتبار ناپاک ہوئے یا پاکی کے مکلف ہوئے بوجہ تقاضا بشری اور بوجہ ایمان پاک ہوئے ،یعنی اگر انسان ایمان قبول نہ کرے تو وہ نا پاک ہے،جو یقینی امر ہے۔اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کیا فرشتے بھی بوجہ ایمان پاک ہوئے ؟میں کہتا ہوں ایسا نہیں کیوں کہ ان کی تخلیق بحالت ایما ن ہی ہوتی ہے اور یہ عذاب ثواب ،اور دوزخ جنت ، اور حساب کتاب کے بھی مکلف نہیں ،کیوں کہ ان کو خالص عبادت کے لیے پیدا کیا گیا ہےیا جو کام ان کے سپرد کئے جاتے ہیں ان میں کمی بیشی کے بغیر کر گزرتے ہیں ۔ 
تو معلوم ہوا طہارت کا تعلق پہلے بشری تقاضوں کی وجہ سے ہے اور پھر ایمان سے ۔قبول ایمان تو تطہیر روح کا ذریعہ ہے نہ کہ تطہیر جسم کا ۔ قبول ایمان کی وجہ سے روح پاکیزہ ہوتی ہے نہ کہ جسم ،اور یہ بھی معلوم رہے کہ جسم کی حرکات سے ہی روح بھی متاءثر ہوتی ہے ،اس لیے جسم کی پاگیزگی نام ہے حدث اصغر اور حدث اکبر سے پاک ہوناجس کے لیےایمان شرط نہیں۔ اس کو میں چند مثالوں سے واضح کرنے کی کوشش کرتا ہوں۔
حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے ایمان لانے کامشہور واقعہ ہے ،کہ ابھی انہوں نے ایمان قبول نہیں کیا تھا( پورے واقعہ کو ذکر کرنے کی ضرورت نہیں)آپ ؓ نے اپنی بہن اور بہنوئی سے قرآن پاک کے ان اوراق کا پڑھنے کا اشتیاق ظاہر کیا جس کی یہ دونوں تلاوت کررہے تھے (یا تعلیم حاصل کررہے تھے) انہوں نے دینے سے انکار کردیا اور کہا کہ پہلے غسل فرمالیں تب اس کو ہاتھ لگا سکتے ہیں ۔الغرض حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے غسل فرمایا اور پھر ان اوراق کی تلاوت کی جیسے جیسے پڑھتے گئے اندر کی کیفیت بدلتی چلی گئی اس کے بعد ایمان قبول کیا ۔ اس واقعہ سے معلوم ہوا، قرآن پاک کوچھونے کے لیے اگر ایمان شرط ہوتا تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی بہن اور بہنوئی غسل کے ساتھ ساتھ ایمان کی شرط اور لگاتے تب ان کو قرآن پاک کو چھونے دیتے اس سے معلوم ہوا قرآن پاک کو چھونے کے لیے ایمان شرط بلکہ پاکی شرط ہے اور پاکی نام ہے حدث اکبر اور اصغر سے پاک ہونا۔ ایک دوسری مثال اور پیش کرتا ہوں:
سابقہ ایام میں ایشیاء کی مشہورپریس یا مطبع جس کو’’ مطبع نول کشور‘‘ کے نام سے جانا جاتا ہے ،اس مطبع میں قرآن پاک سے لیکر احادیث کی تمام کتب اور اسلامیات کا تمام لٹریچر طبع ہوتا تھا ،اور حال یہ تھا کہ اس مطبع کا مالک خود بھی اور تمام ملاذمین جس کمرے میں قرآن پاک کی چھپائی ہوتی تھی بغیر غسل اور بغیر وضو کے کوئی بھی داخل نہیں ہوسکتا تھا دوران طباعت ’’پریس مین‘‘ با وضو رہتے تھے اور جن ان پلیٹوں کو دھویا جاتا تھا اس کا دھو ون زمین پر نہیں گرتا تھا بلکہ اس کو ایک بڑے ٹب کے ذریعہ ڈرم میں بھرا جا تا اور پھر اس کو سمندر میں بہایا جاتا۔ اور یہ اس زمانہ کی بات ہے تمام مسالک کبار علماء موجود تھے اور کسی نے بھی اس مطبع پر اعتراض نہیں کیا ، کہ اس کا مالک غیر مسلم ہے اس لیے یہاں قرآن پاک نہیں چھپنا چاہئے ۔ اس سے معلوم ہوا قرآن پاک چھونے کے لیے ایمان لازم نہیں بلکہ جسم کا پاک ہونا لازم ہے۔

وَمَنْ يُّعَظِّمْ شَعَاۗىِٕرَ اللہِ فَاِنَّہَا مِنْ تَقْوَي الْقُلُوْبِ۝۳۲ 

اور جو شخص ادب کی چیزوں کی جو خدا نے مقرر کی ہیں عظمت رکھے تو یہ (فعل) دلوں کی پرہیزگاری
اب آگے چلتے ہیں :

حضرت موسی علیہ السلام کوباری تعالیٰ سے شرف کلامی یا دیدار کا اشتیاق ہوا قصہ مختصر حضرت موسیٰ علیہ السلام کو چالیس روزے اور چالیس راتیں تنہائی میں عبادت کے لیے گزارنی پڑی،اس کے بعد ان کو کوہ طور پر بلایا گیا جب حضرت موسیٰ علیہ السلام تشریف لے گئے تو ان کو حکم دیا گیا :

اِنِّىْٓ اَنَا رَبُّكَ فَاخْلَعْ نَعْلَيْكَ۝۰ۚ اِنَّكَ بِالْوَادِ الْمُقَدَّسِ طُوًى۝۱۲ۭ 
میں تو تمہارا پروردگار ہوں تو اپنی جوتیاں اتار دو۔ تم (یہاں) پاک میدان (یعنی) طویٰ میں ہو 

یہاں موضوع سے ہٹ کر ایک بات اور عرض کردوں کہ اس آیت شریفہ سے یہ بات معلو م ہورہی ہے کہ مقامات مقدسہ یعنی مساجد میں جوتے پہن کر نہیں جانا چاہئے کیوں کہ یہ مقامات مقدسہ میں شامل ہیں یعنی مساجد بیت اللہ ہیں ،لیکن ہم نے دیکھا ہے حرمیں شریفین میں کچھ عرب اور پولس کے اہلکار ان مقامات مقدسہ میں جوتے لیے پھر تے ہیں اور جوتے پہن کر ہی نماز پڑھتے ہیں کیا ان کے جوتے حضرت موسیٰ علیہ السلام کے جوتوں سے زیادہ پاکیزہ ہیں ۔ شاید ان کے سامنے یہ آیت شریفہ نہیں گزری ۔ یا اس کو کہہ دیا جائے گا یہ شریعت موسی علیہ السلام کا حکم ہے (فتدبرو یا الوالابصار):یہ آیت سامنے رہنی چاہئے

وَمَنْ يُّعَظِّمْ شَعَاۗىِٕرَ اللہِ فَاِنَّہَا مِنْ تَقْوَي الْقُلُوْبِ۝۳۲ 

اور جو شخص ادب کی چیزوں کی جو خدا نے مقرر کی ہیں عظمت رکھے تو یہ (فعل) دلوں کی پرہیزگاری
معلوم یہ ہوا کہ تمام شعائراللہ کی تعظیم وتکریم کرنا واجب ہے اس میں مساجد بھی شامل ہیں اور کلام الٰہی بھی ۔

خیر یہ میرا موضوع نہیں ، میں عرض کررہا تھا اس کے موسیٰ علیہ السلام کو شرف کلامی حاصل ہوا اس کے بعد ان توریت عنایت کی گئی ، اس وقعہ سے یہ بتانا مقصود ہے کہ روحانی پاکیزگی اور جسمانی پاکیزگی کے بعد موسیٰ علیہ السلام کو توریت عنایت کی گئی ،اب دوسرا واقعہ اور ملاحظہ فرمائیں :
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے قلب اطہر کو دوبار آب زمزم سے دھویاگیا کس لیے اس لیے کہ اس قلب اطہر پر آگے چل کرامانت نازل ہونے والی ہے جس کو قرآن پاک میں اس طرح فرمایا:
وَاِنَّہٗ لَتَنْزِيْلُ رَبِّ الْعٰلَمِيْنَ۝۱۹۲ۭ نَزَلَ بِہِ الرُّوْحُ الْاَمِيْنُ۝۱۹۳ۙ عَلٰي قَلْبِكَ لِتَكُوْنَ مِنَ الْمُنْذِرِيْنَ۝۱۹۴ۙ 
اور یہ قرآن (خدائے) پروردگار عالم کا اُتارا ہوا ہے ،اس کو امانت دار فرشتہ لے کر اُترا ہے ،(یعنی اس نے) تمہارے دل پر (القا) کیا ہے تاکہ (لوگوں کو) نصیحت کرتے رہو 
یہی وجہ رہی کہ نبی کریم بشری تقاضوں کے علاوہ با وضو رہے۔
ان دونوں واقعوں کے تذکرہ سے یہ بتانا مقصود ہے کہ جب پاکیزگی اور طہارت کا خصوصی اہتمام ان برگزیدہ ہستیوں کے ساتھ پیش آیا تو کجا ہم جسے عام انسان ،اس لیے ہمیں تو کچھ زیادہ ہی پاکیزگی اور طہارت کا اہتمام کرنا چاہے، کجا بے وضو قرآن پاک کو چھونے کی اجازت دینا ۔
اب دیکھتے ہیں اس آیت شریفہ کو:
اِنَّہٗ لَقُرْاٰنٌ كَرِيْمٌ۝ فِيْ كِتٰبٍ مَّكْنُوْنٍ۝ لَّا يَمَسُّہٗٓ اِلَّا الْمُطَہَّرُوْنَ۝تَنْزِيْ لٌ مِّنْ رَّبِّ الْعٰلَمِيْنَ۝ 
کہ یہ بڑے رتبے کا قرآن ہے ،(جو) کتاب محفوظ میں (لکھا ہوا ہے) ،اس کو وہی ہاتھ لگاتے ہیں جو پاک ہیں،پروردگار عالم کی طرف سے اُتارا گیا ہے ۔
’’مطہرون ‘‘کے بارے میں احقر نے اپنی علمی بے بضاعتی کے با وجود کچھ اظہار کرنے کی جسارت کی ہے؛ 
کچھ تنزیل کے بارے میں عرض کردوں 
سماوی،اور ارضی حکامات میں فرق ہے ۔جب تکی یہ قرآن پاک آسمان میں رہا اس کو ’’ محفوظ ‘‘ سے خطاب کیا گیا مثلاً ’’فی لوح محفوظ‘‘ اور جب دینا میں نازل ہونا شروع ہوا تو اس کو’’ تیزیل ‘‘کہا گیا۔ اس سے معلوم ہوا’’ مطہرون ‘‘کے مصداق انسان ہیں نہ کہ ملائک ۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: تَنْزِيْلٌ مِّنْ رَّبِّ الْعٰلَمِيْنَ‘‘ کہاں نازل کیا گیا فرمایا: عَلٰي قَلْبِكَ لِتَكُوْنَ مِنَ الْمُنْذِرِيْنَ؛ یعنی معلوم ہوا لوح محفوظ سےحسب ضرورت آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہوا۔
خلاصہ کلام : ان تمام توضیحات سے معلوم ہوا بغیر وضو قرآن پاک کو نہیں چھونا چاہیے ،اگر موقعہ محل نہیں ہے تو تیمم کرلینا چاہئے 
اس کے بعد کچھ دلائل پیش خدمت ہیں جو احادیث وغیرہ میں مذکور ہیں:
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ رَافِعٍ حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ بْنُ هَمَّامٍ حَدَّثَنَا مَعْمَرُ بْنُ رَاشِدٍ عَنْ هَمَّامِ بْنِ مُنَبِّهٍ أَخِي وَهْبِ بْنِ مُنَبِّهٍ قَالَ هَذَا مَا حَدَّثَنَا أَبُو هُرَيْرَةَ عَنْ مُحَمَّدٍ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَذَکَرَ أَحَادِيثَ مِنْهَا وَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَا تُقْبَلُ صَلَاةُ أَحَدِکُمْ إِذَا أَحْدَثَ حَتَّی يَتَوَضَّأَ (مسلم)
محمد بن رافع، عبدالرزاق بن ہمام، معمر بن راشد، ہمام بن منبہ سے روایت ہے کہ انہوں نے چند وہ احادیث ذکر کیں جو ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے بیان کیں ان میں سے بعض احادیث کو ذکر کیا ان میں سے ایک یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا تم میں سے کسی کی نماز قبول نہیں کی جاتی جب وہ بے وضو ہو جائے یہاں تک کہ وہ وضو کر لے۔

اور

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عمر بن حزم رضی اللہ عنہ کو خط لکھا جس میں یہ تھا: أنہ کتب لعمر بن حزم: لا یمسّ القرآن إلاَّ طاہر (احکام القرن مفتی محمد شفیع صاحبؒ) یعنی قرآن پاک نہ چھوئے مگر پاک آدمی
اور حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے اسلام لانے کا وا قعہ جیسا کہ ماقبل میں مذکور ہوا ،اس میں ہے: فقال لأختہ أعطوني الکتاب الذي کنتم تقروٴون فقالت إنک رجس وإنہ لا یمسہ إلا المطھرون فقم فاغتسل أو توضأ فتوضأ فأخذ الکتاب فقرأہ (أحکام القرآن للجصاص) کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اپنی بہن سے قرآن مانگا۔ بہن نے کہا کہ تم ناپاک ہو، قرآن کو تو پاک لوگ ہی چھوسکتے ہیں، لہٰذا جاوٴ غسل کرو یا وضو کرو! حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے وضو کیا پھر قرآن لے کر پڑھا۔
اور حضرت سعد سے مروی ہے کہ انھوں نے اپنے بیٹے کو بے وضو قرآن چھونے سے منع کیا، حضرت ابن عمر سے بھی اسی کے مثل منقول ہے۔ (احکام القرآن للجصاص)
اور تفسیر مظہری میں اس طرح ہے:
”فالمعنی لایمس القرآن الا المطہرون من الاحداث فیکون بمعنی النہی والمراد بالقرآن المصحف“(۱۰:۱۸۱)
یعنی قرآن کو نہیں چھوتے مگر پاک اس سے مراد یہ ہے کہ قرآن کو نہ چھوئیں، مگر وہی لوگ جو پاک ہوں اور قرآن سے مراد یہی لکھی ہوئی کتاب ہے۔
اور ایک دوسری حدیث شریف میں اس طرح ہے:
”عن عبد الرحمن بن یزید قال: کنا مع سلمان فخرج فقضی حاجتہ ثم جاء‘ فقلت: یا ابا عبد اللہ! لو توضأت لعلنا نسالک عن آیات قال انی لست امسہ انہ لایمسہ الا المطہرون فقرأ علینا ما شئنا انتہی“۔و صححہ الدار قطنی (نصب الرایة‘۱:۲۸۴)
یعنی حضرت عبد الرحمن بن یزید فرماتے ہیں کہ ہم حضرت سلمان کے ساتھ تھے کہ وہ قضائے حاجت کے لئے گئے اور پھر جب واپس آئے تو میں نے کہا :اے ابو عبد اللہ! اگر آپ وضوکر لیتے تو ہم آپ سے چند آیات کے بارے میں پوچھتے تو آپ نے فرمایا کہ: میں․اس حالت میں قرآن کو نہیں چھوؤں گا،‘ اس لئے کہ قرآن کو صرف پاک لوگ ہی چھو سکتے ہیں پھر ہمارے سامنے ہماری مطلوبہ آیات کی تلاوت کی۔
اور فتاویٰ ہندیہ میں ہے:
منھا حرمۃ مس المصحف لا یجوز لہما وللجنب والمحدث مس المصحف الا بغلاف متجاف عنہ کالخریطۃ والجلد الغیر المشرز لابما ھو متصل بہ ھو الصحیح ھکذا فی الھدایۃ وعلیہ الفتوی کذا فی الجوھرۃ النیرۃ والصحیح منع مس حواشی المصحف والبیاض الذی لاکتابۃ علیہ (ھکذا فی التبیین)
۔ان ہی امور میں سے مصحف چھونے کی حرمت بھی ہے۔ حیض ونفاس والی کے لئے ،جنب کے لئے ،اوربے وضو کے لئے مصحف چھونا جائز نہیں۔مگر ایسے غلاف کے ساتھ جو اس سے الگ ہوجیسے جزدان اوروہ جلد جو مصحف کے ساتھ لگی ہوئی نہ ہو، اس غلاف کے ساتھ چھُونا جائز نہیں جو مصحف سے جُڑا ہوا ہو یہی صحیح ہے، ایسا ہی ہدایہ میں ہے، اسی پر فتوٰی ہے اسی طرح جوہرہ نیرہ میں ہے ۔اور صحیح ہے کہ مصحف کے کناروں اوراس بیاض کو بھی چھونا منع ہے جس پر کتابت نہیں ہے۔ اور ایسا ہی تبیین میں ذکر ہے۔
اور درمختار میں ہے:
ولو مکتوبا بالفار سیۃ فی الاصح الا بغلافہ المنفصل
اور اصح یہ ہے کہ اگر فارسی میں قرآن پاک لکھا ہوتوبھی چھونا جائز نہیں مگر ایسے غلاف کے ساتھ جو مصحف سے الگ ہو۔
اور جمہور امت اور ائمہ اسلاف اس بات پر متفق ہیں کہ حائضہ عورت قرآن کریم کی تلاوت نہیں کرسکتی۔ جیسا کہ معارف السنن میں ہے:
ذہب الجمہور وابوحنیفہ رحمہ اللہ والشافعی رحمہ اللہ واحمد رحمہ اللہ اکثر العلماء والائمة الی منع الحائض والجنب عن قراء ة القرآن قلیلہا وکثیرہا(۱:۴۴۵)
الغرض اس طرح کے کثیر تعداد میں فتاویٰ ہیں کہ بغیر وضو قرآن پاک چھونا جائز نہیں بعض نے حرام تک لکھا ہے اور اس بابت جمہور علماء کا اجماع ہے 
امام المحدثین امام بخاری ؒ جب کوئی حدیث شریف لکھتے تواس پہلے دوگانہ ادا کرتے اور پھر حدیث شریف لکھتے ۔ جب حدیث شریف لکھنے کے لیے اتنا اہتمام فرماتے تھے تو قرآن پاک کے بارے میں کیا عمل ہونا چاہئے ؟ بات چونکہ بہت طویل ہوگئی بس اسی پر اکتفاء کرتا ہوں نہیں تو بہت کچھ لکھا جا سکتا ہے اللہ تعالیٰ قبول فرمائے۔
واللہ اعلم بالصواب

0 comments:

Post a Comment

اردو میں تبصرہ پوسٹ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کر دیں۔


Powered by Blogger.